Friday, 29 November 2024

نہ جانے دل کو یہ کیسا ہراس رہتا ہے

 نہ جانے دل کو یہ کیسا ہراس رہتا ہے

کوئی تو ہے جو مِرے آس پاس رہتا ہے

سمجھ میں آ نہ سکے، ذہن پر محیط رہے

وہ کون ہے؟ جو قرینِ قیاس رہتا ہے

یہ کیسے درد کی لذت ہے شاملِ احساس

عجیب کیف سے دل روشناس رہتا ہے

جہاں پہ اہلِ خِرد پاؤں دھر نہیں سکتے

اس انجمن میں ہمیں بارِ خاص رہتا ہے

کچھ اپنا حال دِگرگوں نہیں فقط اکرم

مِرے بغیر وہ خود بھی اُداس رہتا ہے


پیر اکرم

No comments:

Post a Comment