شکستہ پا ہیں کوئی آسرا بناتے ہیں
مٹا کے خود کو جو ہم اک خدا بناتے ہیں
ہمیں شعور حقیقت نہیں سو ہم اکثر
فریب جنبش بال ہما بناتے ہیں
وہ اپنے حسن کا ہر راز کھولنے کے لیے
قبا بناتے ہیں بند قبا بناتے ہیں
ابد کے دوش پہ سوئے ازل چلے ہیں کہ ہم
نیا ہی نقش کوئی دہر کا بناتے ہیں
خدائے موسم گل ان کو تازگی بخشے
جو دست شوق سے دست صبا بناتے ہیں
نئے سرے سے کوئی انتہا بنانے کو
نئے سرے سے کوئی ابتدا بناتے ہیں
خدا شناس ہیں ہم اس لئے بنام صنم
حرم بناتے ہیں قبلہ نما بناتے ہیں
کبھی گزر نہ سکیں اپنے قریۂ جاں سے
سو ہم وجود میں اپنے خلا بناتے ہیں
کسی حسینۂ بلقیس ادا کی خاطر ہم
نگار خانۂ شہر سبا بناتے ہیں
ہم اپنے ذہن کے قرطاس پر ترے ہوتے
تجھے بناتے ہیں اور جا بجا بناتے ہیں
چلو جہان خیال و گمان میں شارق
پھر اس جہاں سا کوئی سانحہ بناتے ہیں
شارق جمال
No comments:
Post a Comment