تا عمر دائروں میں گھمایا گیا مجھے
یوں زندگی کا کھیل کھلایا گیا مجھے
سب لوگ اپنی اپنی غرض کے اسیر تھے
آیا نہ راس کوئی بھی آیا گیا مجھے
خوابوں کے چند خام سے سکے اچھا کر
سانسوں کی ڈوریوں پہ نچایا گیا مجھے
ماحول شہر شہر میں بس ایک ہی سا تھا
لوگوں کے جنگلوں میں گھمایا گیا مجھے
آنکھیں کھلیں تو خواب کی تعبیر سو گئی
یوں خواب روشنی کا دکھایا گیا مجھے
دلشاد جس کے خال و خد پہچان میں نہ تھے
اک ایسی زندگی سے ملایا گیا مجھے
دلشاد احمد
No comments:
Post a Comment