Thursday, 28 November 2024

تا عمر دائروں میں گھمایا گیا مجھے

 تا عمر دائروں میں گھمایا گیا مجھے

یوں زندگی کا کھیل کھلایا گیا مجھے

سب لوگ اپنی اپنی غرض کے اسیر تھے

آیا نہ راس کوئی بھی آیا گیا مجھے

خوابوں کے چند خام سے سکے اچھا کر

سانسوں کی ڈوریوں پہ نچایا گیا مجھے

ماحول شہر شہر میں بس ایک ہی سا تھا

لوگوں کے جنگلوں میں گھمایا گیا مجھے

آنکھیں کھلیں تو خواب کی تعبیر سو گئی

یوں خواب روشنی کا دکھایا گیا مجھے

دلشاد جس کے خال و خد پہچان میں نہ تھے

اک ایسی زندگی سے ملایا گیا مجھے


دلشاد احمد

No comments:

Post a Comment