ذکر عشرت ماضی قصہ ہے فسانہ ہے
آج غم کی دنیا ہے،۔ درد کا زمانہ ہے
دیدنی ہے آرائش اب نگارِ ہستی کی
زندگی کی زُلفوں میں کشمکش کا شانہ ہے
نذرِ جور گُلچیں ہے، برق کی بھی زد میں ہے
ہائے، وہ چمن اپنا جس میں آشیانہ ہے
آؤ پھر متاعِ غم بانٹ دیں زمانے میں
آج آدمیت پھر ظُلم کا نشانہ ہے
انقلابِ دوراں سے وہ نیاز کیوں بدلیں
جن کا مے کدہ مسکن، طرز عاشقانہ ہے
نیاز گلبرگوی
No comments:
Post a Comment