ہرے درختوں سے، تازہ فضا سے ہٹ کر بھی
کچھ اور ہے یہاں آب و ہوا سے ہٹ کر بھی
یہ عشق ہے، کوئی معمولی جرم تھوڑی ہے
ازالہ کرنا پڑے گا، سزا سے ہٹ کر بھی
خدا کے ہونے نہ ہونے کی بحث ایک طرف
کوئی امید نہیں ہے، خدا سے ہٹ کر بھی
مدار چھوڑنے والے بتاتے پھر رہے ہیں
نہیں ملے گا کچھ اپنی جگہ سے ہٹ کر بھی
میں سر منڈاتے ہی اولوں کی زد میں آ گیا ہوں
فراق کھانے لگا ہے، وبا سے ہٹ کر بھی
اگر یقین نہ ہو تو شفا نہیں ملتی
علاج جاری رکھوں گا، دوا سے ہٹ کر بھی
سپاہی جملہ کسے، جنگ کے تناظر میں
حریف گالیاں دے، بد دعا سے ہٹ کر بھی
تمہی بتاؤ؛ میں کس کی پناہ میں جاؤں؟
ہزار خوف ہیں، خوفِ خدا سے ہٹ کر بھی
ہم اس کے دل میں گئے تو پتہ چلا گوتم
عجیب زہر بھرا ہے، خلا سے ہٹ کر بھی
گوتم ملتانی
No comments:
Post a Comment