Sunday, 24 November 2024

ندی سے کوئی بھی پیاسا نہ جائے

 ندی سے کوئی بھی پیاسا نہ جائے

کناروں سے اگر اُلجھا نہ جائے

یہ مانا بن چکا ہے پل ندی پر

مگر ملاح سے اُلجھا نہ جائے

سمندر کی بس اتنی آرزو ہے

ندی کا راستہ روکا نہ جائے

چُرا کر لے گیا ہے کوئی مجھ کو

مِرے اندر مجھے ڈھونڈا نہ جائے

کچھ اتنے غور سے دیکھو نہ اس کو

کہ پھر خود کی طرف دیکھا نہ جائے

سمجھ لینا تمہارا دُکھ بڑا ہے

کسی دُکھ میں اگر رویا نہ جائے

بگڑ سکتا ہے کشتی کا توازن

کنارے کی طرف دیکھا نہ جائے


رگھونندن شرما دانش

No comments:

Post a Comment