فتنہ پردازی عدو کا نام ہے
نام رہبر کا یونہی بدنام ہے
رنج و غم میں بھی ہمیں بخشا سکوں
زندگی بر دوشِ مے کا جام ہے
پینے والوں کو سلیقہ ہی نہیں
مے کدہ تو مفت میں بدنام ہے
تجھ سے مل کر اب کھلا ہم پر یہ راز
ہجر میں تیرے بہت آرام ہے
جل رہے ہیں مفت میں اہلِ حسد
ہم کو تو مشقِ سخن سے کام ہے
پُرسشِ بیمارِ غم اب ہے عبث
زندگی کا موت ہی انجام ہے
اس غزل کی داد یہ رہبر ملی
آج ہر لب پر تمہارا نام ہے
رہبر جدید
No comments:
Post a Comment