یہ تہلکہ سا خیالوں میں نہ اکثر ہوتا
دل کے بدلے مِرے پہلو میں جو پتھر ہوتا
نہ ملی چھانو تِری زُلف کی مجھ کو نہ سہی
تیری دیوار کا سایہ ہی میسر ہوتا
میری قسمت میں کٹھن راہ تھی میرے آگے
یہ جو صحرا نہیں ہوتا تو سمندر ہوتا
بے گُناہی کا صِلہ ٹھہرا سزاؤں کا نزول
حوصلہ دُونا گُناہوں کا نہ کیوں کر ہوتا
کوئی چرچا تِری غزلوں کا نہیں ہو گا خیال
تیرے حباب میں کوئی تو سخنور ہوتا
پریہ درشی خیال
No comments:
Post a Comment