وہ بھی کیا دن تھے سکون زندگی دیکھا نہ تھا
دھوپ تھی صحرا تھا ہم تھے دور تک سایہ نہ تھا
یا بھری بستی میں کوئی اس کو پڑھ سکتا نہ تھا
یا جبینوں پر کوئی حرف شکن لکھا نہ تھا
غم کی تاریکی میں گم تھا میرا احساس نظر
دل میں تیری یاد کا سورج ابھی نکلا نہ تھا
ہر کرن کی دھار گرچہ کند اتنی بھی نہ تھی
رات کا پتھر کسی صورت مگر کٹتا نہ تھا
ایک مدت ہو گئی تھی مجھ کو اپنے گھر میں بند
میرے دروازے پہ دستک کوئی بھی دیتا تھا
گنبد بے در کی صورت تھی حیات بے ثبات
میں حصار ذات سے باہر کبھی نکلا نہ تھا
سب ہی آنکھوں میں سجائے پھر رہے تھے رتجگے
کیا سبب تھا شہر میں کل شب کوئی سویا نہ تھا
بعد مدت جب ہوا تھا آئینے کے رو برو
یوں لگا تھا جیسے یہ چہرہ مِرا اپنا نہ تھا
کیا ہوا اب دل کی دھڑکن بھی صدا دیتی نہیں
اتنا گہرا پہلے اس بستی میں سناٹا نہ تھا
کون پانی میں اتر کر ڈھونڈتا سجاد کو
موج نے اس کا فسانہ ریت پر لکھا نہ تھا
سجاد مرزا
No comments:
Post a Comment