Friday, 8 November 2024

وہ بھی کیا دن تھے سکون زندگی دیکھا نہ تھا

 وہ بھی کیا دن تھے سکون زندگی دیکھا نہ تھا

دھوپ تھی صحرا تھا ہم تھے دور تک سایہ نہ تھا

یا بھری بستی میں کوئی اس کو پڑھ سکتا نہ تھا

یا جبینوں پر کوئی حرف شکن لکھا نہ تھا

غم کی تاریکی میں گم تھا میرا احساس نظر

دل میں تیری یاد کا سورج ابھی نکلا نہ تھا

ہر کرن کی دھار گرچہ کند اتنی بھی نہ تھی

رات کا پتھر کسی صورت مگر کٹتا نہ تھا

ایک مدت ہو گئی تھی مجھ کو اپنے گھر میں بند

میرے دروازے پہ دستک کوئی بھی دیتا تھا

گنبد بے در کی صورت تھی حیات بے ثبات

میں حصار ذات سے باہر کبھی نکلا نہ تھا

سب ہی آنکھوں میں سجائے پھر رہے تھے رتجگے

کیا سبب تھا شہر میں کل شب کوئی سویا نہ تھا

بعد مدت جب ہوا تھا آئینے کے رو برو

 یوں لگا تھا جیسے یہ چہرہ مِرا اپنا نہ تھا

کیا ہوا اب دل کی دھڑکن بھی صدا دیتی نہیں

اتنا گہرا پہلے اس بستی میں سناٹا نہ تھا

کون پانی میں اتر کر ڈھونڈتا سجاد کو

موج نے اس کا فسانہ ریت پر لکھا نہ تھا


سجاد مرزا

No comments:

Post a Comment