رزق
چلو پھر ایسا کرتے ہیں، ذرا تفہیم کرتے ہیں
بنامِ عدلِ آدم، رزق ہم تقسیم کرتے ہیں
تو تم ساری حکومت، شان و شوکت، تمکنت لے لو
فضائے بحر و بر کے سب امورِ سلطنت لے لو
عدالت، حُسن و دولت، اختیارِ بے کراں لے لو
سپہ، دربار، شہرت، اقتدارِ دو جہاں لے لو
مجھے کچھ حرف دے دو، لفظ دے دو، اک قلم دے دو
زمانے بھر کا غم دے دو، مجھے تم چشمِ نم دے دو
مجھے کچھ خواب دے دو، سنگریزے، تلخیاں دے دو
دلِ افسردہ، خالی گھر، قفس کی تیلیاں دے دو
مگر دو دن کا قصہ ہے، کمالِ تمکنت جاناں
صحیفوں کی روایت ہے، زوالِ سلطنت جاناں
اک ایسا وقت آئے گا، بھری دوپہر میں جاناں
اکیلے تم کھڑے ہو گے، اکیلے شہر میں جاناں
میری جاں! ایسے موسم میں میرے الفاظ بولیں گے
میرے الفاظ کے جادُو درِ حیرت کو کھولیں گے
میں لکھوں گا وہ نغمے جو کبھی سوچے نہیں تم نے
ابھی کچھ بال و پر باقی ہیں، جو نوچے نہیں تم نے
کچھ ایسے استعارے جو کبھی بولے نہیں جاتے
میں اُگلوں گا وہ موتی، جو کبھی تولے نہیں جاتے
میری نظمیں جمالِ موسمِ جاں کو نکھاریں گی
میری غزلیں تمہارے حُسن کی زلفیں سنواریں گی
تمہیں میں حُسن دوں گا، اعتبارِ بے کراں دوں گا
وقارِ حُسن دوں گا، اختیارِ جسم و جاں دوں گا
فضائے نغمہ و گُل میں، تمہیں میں زندہ رکھوں گا
حصارِ شہر جاں میں، میں تمہیں پائندہ رکھوں گا
تو جاناں ایسا کرتے ہیں ذرا تفہیم کرتے ہیں
بنامِ عدلِ آدم رزق ہم تقسیم کرتے ہیں
سرفراز سید
No comments:
Post a Comment