عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حضور کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے
بڑی سرکار میں پہنچے مقدر یاوری پر ہے
نہ ہم آنے کے لائق تھے نہ قابل منہ دکھانے کے
مگر ان کا کرم ذرہ نواز و بندہ پرور ہے
خبر کیا ہے بھکاری کیا کیا نعمتیں پائیں
یہ اونچا گھر ہے اس کی بھیک اندازہ سے باہر ہے
تصدق ہو رہے ہیں لاکھوں بندے گرد پھر پھر کر
طواف خانۂ کعبہ عجب دلچسپ منظر ہے
خدا کی شان یہ لب اور بوسہ سنگ اسود کا
ہمارا منہ اور اس قابل عطائے رب اکبر ہے
جو ہیبت سے رکے مجرم تو رحمت نے کہا بڑھ کر
چلے آؤ چلے آؤ یہ گھر رحمٰن کا گھر ہے
مقام حضرت خلت پدرساں مہرباں پایا
کلیجہ سے لگانے کو حطیم آغوش مادر ہے
لگاتا ہے کوئی غلاف پاک چشم پرنم سے
لپٹ کر ملتزم سے کوئی محو وصل دلبر ہے
وطن اور اس کا تڑکہ صدقے اس شام غریبی پر
کہ نور رکن شامی روکش صبح منور ہے
ہوئے ایمانی تازہ بوسۂ رکن ایمانی سے
فدا ہو جاؤں یمن و ایمنی کا پاک منظر ہے
یہ زمزم اس لئے ہے جس لیے اس کو پئے کوئی
اسی زمزم میں جنت ہے اسی زمزم میں کوثر ہے
شفا کیوں کر نہ پائیں نیم جاں زہر معاصی سے
کہ نظارہ عراقی رکن کا تریاق اکبر ہے
صفائے قلب کے جلوے عیاں ہیں سعی مسعٰی سے
یہاں کی بے قراری بھی سکون جان مضطر ہے
ہوا ہے پیر کا حج پیر نے جن سے شرف پایا
انھیں کے فضل سے دن ہر جمعہ کا ہر دن سے بہتر ہے
نہیں کچھ جمعہ پر موقوف افضال و کرم ان کا
جو وہ مقبول فرما لیں تو ہر حج حج اکبر ہے
حسن حج کر لیا کعبہ سے آنکھوں نے ضیاء پائی
چلو دیکھیں وہ بستی جس کا رستہ دل کے اندر ہے
حسن رضا بریلوی
No comments:
Post a Comment