دامن دل کھینچ سکتی ہی نہیں کوئی طلب
ہم نے اے دنیا رکھی ہے واجبی تیری طلب
کچھ سمجھ آتا نہیں دونوں ہیں کیسے ساتھ ساتھ
جسم کے اپنے تقاضے، روح کی اپنی طلب
ہو گئی معدوم فرصت، رابطے کمزور تر
جاگ اٹھی ہے نجانے شہر میں کیسی طلب
کیا اسے خوشحال کر پائیں گے فرسودہ خیال
شاعری کو ہے سدا مضمون تازہ کی طلب
کیا مجھے بھولا نہیں تو اتنی مدت بعد بھی
کیا تِرے دل میں ابھی موجود ہے میری طلب
واصف سجاد
No comments:
Post a Comment