Friday, 8 November 2024

دامن دل کھینچ سکتی ہی نہیں کوئی طلب

 دامن دل کھینچ سکتی ہی نہیں کوئی طلب

ہم نے اے دنیا رکھی ہے واجبی تیری طلب

کچھ سمجھ آتا نہیں دونوں ہیں کیسے ساتھ ساتھ

جسم کے اپنے تقاضے، روح کی اپنی طلب

ہو گئی معدوم فرصت، رابطے کمزور تر

جاگ اٹھی ہے نجانے شہر میں کیسی طلب

کیا اسے خوشحال کر پائیں گے فرسودہ خیال

شاعری کو ہے سدا مضمون تازہ کی طلب

کیا مجھے بھولا نہیں تو اتنی مدت بعد بھی

کیا تِرے دل میں ابھی موجود ہے میری طلب


واصف سجاد

No comments:

Post a Comment