فقط اشیاء کی قیمت دیکھتا ہوں
میں سب حسبِ ضرورت دیکھتا ہوں
مِرا انکار بھی میرا نہیں ہے
میں بس تیری سہولت دیکھتا ہوں
وہ رستہ بھول جاتا ہوں سفر میں
جسے میں وقتِ رُخصت دیکھتا ہوں
نئی نعمیر مجھ سے اٹھ رہی ہے
میں ملبے میں عمارت دیکھتا ہوں
اٹھا لیتا ہوں اپنی جان کر میں
جہاں کوئی مصیبت دیکھتا ہوں
مرمت کر چکا ہوں کشتیوں کی
بس اب دریا کی نیت دیکھتا ہوں
تماشا گر کو زاہد! کیا بتاؤں؟
میں کس منظر کی نسبت دیکھتا ہوں
زاہد نبی
No comments:
Post a Comment