مجھ کو میری ذات کے زندان میں رکھا گیا
یعنی ہر لمحہ مجھے نقصان میں رکھا گیا
وقتِ رخصت موسمِ گل کی بھی یوں تکریم کی
پھُول جو ٹوٹے اُنہیں گُلدان میں رکھا گیا
جس کے آ جانے سے یہ اشعار زندہ ہوگئے
ایک ایسا لفظ بھی دیوان میں رکھا گیا
مُنصفوں کو پھر کسی جانب جُھکاؤ نہ ملا
جب کبھی مجھ کو کسی میزان میں رکھا گیا
کم قدر سامان کی بھی قدر و قیمت بڑھ گئی
جب تمہارا خط مِرے سامان میں رکھا گیا
میری اپنے آپ سے کچھ دوستی ہونے لگی
جب مجھے اِک گوشۂ ویران میں رکھا گیا
کی گئی کچھ اِس طرح سے نسلِ نو کی پرورش
نفرتوں کے بیج کو اذہان میں رکھا گیا
یاسر رضا آصف
No comments:
Post a Comment