اس کاروبار زیست میں الجھا نہ تو نہ میں
اسرار بندگی کے تو سمجھا نہ تو نہ میں
یہ بار زندگی تو اٹھانا پڑا بہ جبر
پر اس کے غم میں رات کو سویا نہ تو نہ میں
بجتا رہا یہ ساز ملامت تو روز و شب
اس کے سروں پہ خیر سے ناچا نہ تو نہ میں
کرتا رہا نشہ تری محفل میں، میں مگر
اور اس کے باوجود بھی بہکا نہ تو نہ میں
لکھتا رہا فسانے دل ناسپاس کے
اس دل کی دھڑکنوں کو تو سمجھا نہ تو نہ میں
کچھ اس طرح رہا میں ہواؤں کے ساتھ ساتھ
ہوں بلبلے ہواؤں میں گویا نہ تو نہ میں
شاہد کو زندگی سے کبھی پیار کب ہوا
اس کاروبار زیست میں کھویا نہ تو نہ میں
ہارون شاہد
No comments:
Post a Comment