Thursday, 7 November 2024

اس کاروبار زیست میں الجھا نہ تو نہ میں

 اس کاروبار زیست میں الجھا نہ تو نہ میں

اسرار بندگی کے تو سمجھا نہ تو نہ میں

یہ بار زندگی تو اٹھانا پڑا بہ جبر

پر اس کے غم میں رات کو سویا نہ تو نہ میں

بجتا رہا یہ ساز ملامت تو روز و شب

اس کے سروں پہ خیر سے ناچا نہ تو نہ میں

کرتا رہا نشہ تری محفل میں، میں مگر

اور اس کے باوجود بھی بہکا نہ تو نہ میں

لکھتا رہا فسانے دل ناسپاس کے

اس دل کی دھڑکنوں کو تو سمجھا نہ تو نہ میں

کچھ اس طرح رہا میں ہواؤں کے ساتھ ساتھ

ہوں بلبلے ہواؤں میں گویا نہ تو نہ میں

شاہد کو زندگی سے کبھی پیار کب ہوا

اس کاروبار زیست میں کھویا نہ تو نہ میں


ہارون شاہد

No comments:

Post a Comment