Tuesday 5 November 2024

وہ غم جو حاصل ہستی ہے مل چکا کہ نہیں

 وہ غم جو حاصل ہستی ہے مل چکا کہ نہیں

پھر اور کون سا ہے لطف دلکشا کہ نہیں

مزاج درد تمنا بدل گیا کہ نہیں

وفا نے رنج کو راحت بنا لیا کہ نہیں

جو دل میں توڑتی رہتی تھی نیشتر ہر دم

ہوئی وہ کاوش جاں کا وہ جاں فزا کہ نہیں

جلا دیا تھا لہو جس نے دل کی رگ رگ کا

وہ سوز آتش غم راس آ گیا کہ نہیں

نظر نظر پہ ہے پیہم تجلیوں کا نزول

تلاش حسن کا حق ہو گیا ادا کہ نہیں

زہے سرور خلش یہ خبر نہیں دل کو. 

جو چبھ گیا تھا وہ کانٹا نکل گیا کہ نہیں

کرشمہ اپنی توجہ کا تم نے دیکھ لیا

ٹھہر گئی مِری عمر گریز پا کہ نہیں

ذرا بتاؤ اگر تم نے سب کی بات سنی

مِرے سکوت نے بھی تم سے کچھ کہا کہ نہیں

کہاں یہ ہوش نشاط طلب میں اے کوکب

نگفتہ حرفِ طلب سن لیا گیا کہ نہیں


کوکب شاہجہانپوری

No comments:

Post a Comment