وہ غم جو حاصل ہستی ہے مل چکا کہ نہیں
پھر اور کون سا ہے لطف دلکشا کہ نہیں
مزاج درد تمنا بدل گیا کہ نہیں
وفا نے رنج کو راحت بنا لیا کہ نہیں
جو دل میں توڑتی رہتی تھی نیشتر ہر دم
ہوئی وہ کاوش جاں کا وہ جاں فزا کہ نہیں
جلا دیا تھا لہو جس نے دل کی رگ رگ کا
وہ سوز آتش غم راس آ گیا کہ نہیں
نظر نظر پہ ہے پیہم تجلیوں کا نزول
تلاش حسن کا حق ہو گیا ادا کہ نہیں
زہے سرور خلش یہ خبر نہیں دل کو.
جو چبھ گیا تھا وہ کانٹا نکل گیا کہ نہیں
کرشمہ اپنی توجہ کا تم نے دیکھ لیا
ٹھہر گئی مِری عمر گریز پا کہ نہیں
ذرا بتاؤ اگر تم نے سب کی بات سنی
مِرے سکوت نے بھی تم سے کچھ کہا کہ نہیں
کہاں یہ ہوش نشاط طلب میں اے کوکب
نگفتہ حرفِ طلب سن لیا گیا کہ نہیں
کوکب شاہجہانپوری
No comments:
Post a Comment