Tuesday 5 November 2024

نہ یاد رہتی ہے چاہت نہ من کی تنہائی

 نہ یاد رہتی ہے چاہت نہ من کی تنہائی

جب آدمی کو جلا دے بدن کی تنہائی

جو حرف لکھے سمجھ میں کسی کی کیا آئیں

اکیلا چھوڑ گئی ہے سخن کی تنہائی

پھر اس طرح ہوا اپنے ہی تن کو پھاڑ دیا

اداس کرتی تھی مجھ کو چبھن کی تنہائی

ہجوم شہر میں ہنستے ہوئے علی عارف

مجھے سنائی دی اپنی تھکن کی تنہائی


علی عارف

No comments:

Post a Comment