نہ یاد رہتی ہے چاہت نہ من کی تنہائی
جب آدمی کو جلا دے بدن کی تنہائی
جو حرف لکھے سمجھ میں کسی کی کیا آئیں
اکیلا چھوڑ گئی ہے سخن کی تنہائی
پھر اس طرح ہوا اپنے ہی تن کو پھاڑ دیا
اداس کرتی تھی مجھ کو چبھن کی تنہائی
ہجوم شہر میں ہنستے ہوئے علی عارف
مجھے سنائی دی اپنی تھکن کی تنہائی
علی عارف
No comments:
Post a Comment