Tuesday 5 November 2024

کہتا ہے ذرہ ذرہ جہان خراب کا

 کہتا ہے ذرہ ذرہ جہانِ خراب کا

سیماب میں ہے رنگ مِرے اضطراب کا

حشر آفریں ہے رنگ کسی کے شباب کا

شیرازہ منتشر ہے جہانِ خراب کا

کوئی قصور اس میں نہیں ہے نقاب کا

ہر پردہ، پردہ در ہے کسی کے حجاب ہوا

شہرہ ہوا ہے جب سے مِرے انقلاب کا

لرزاں ہے ذرہ ذرہ جہانِ خراب کا

ہستی مِری فنا ہے، فنا کا وجود کیا؟

نقشہ برائے نام ہے نقش بر آب کا


پنڈت شائق وارثی

No comments:

Post a Comment