پھیلتے جاتے ہیں افسانے بہت
ایک لیلیٰ کے ہیں دیوانے بہت
پینے والوں کو بقدرِ تشنگی
خود صدا دیتے ہیں میخانے بہت
وارداتوں میں سہولت کے لیے
کھل رہے ہیں جا بجا تھانے بہت
رہگزر سمٹی ہے گھبرائی ہوئی
پھر رہے ہیں لوگ انجانے بہت
صحبت پیرِ مغاں کا فیض ہے
منفعت منفی ہے نذرانے بہت
اگ رہے ہیں سازگاری کے سبب
سرکشوں کے کھیت میں دانے بہت
یاد آ جاتے ہیں مجھ کو ان دنوں
دیکھ کر شہروں کو ویرانے بہت
ایک برے انجام سے دو چار ہوں
جب ہوئے دشمن سے یارانے بہت
تم کسی کی بات سنتے ہی نہیں
آ رہے ہیں لوگ سمجھانے بہت
سرزنش، دھمکی، تشدد، باز پرس
مجھ پہ عائد ہیں یہ جرمانے بہت
اب ٹھکانا ہی نہیں مرغوب کچھ
آشنا تھوڑے ہیں، بیگانے بہت
میاں مرغوب
No comments:
Post a Comment