Monday, 18 November 2024

ہم اپنے دکھ کو گانے لگ گئے ہیں

 ہم اپنے دکھ کو گانے لگ گئے ہیں

مگر اس میں زمانے لگ گئے ہیں

کسی کی تربیت کا ہے کرشمہ

یہ آنسو مسکرانے لگ گئے ہیں

کہانی رخ بدلنا چاہتی ہے

نئے کردار آنے لگ گئے ہیں

یہ حاصل ہے مری خاموشیوں کا

کہ پتھر آزمانے لگ گئے ہیں

یہ ممکن ہے کسی دن تم بھی آؤ

پرندے آنے جانے لگ گئے ہیں

جنہیں ہم منزلوں تک لے کے آئے

وہی رستہ بتانے لگ گئے ہیں

شرافت رنگ دکھلاتی ہے دانش

کئی دشمن ٹھکانے لگ گئے ہیں


مدن موہن دانش

No comments:

Post a Comment