زندگی زندہ دلی ہے، مردنی چھا جائے کیوں
موت کی آغوش میں جانے سے پھر گھبرائے کیوں
کشمکش ہے اس لیے قاصد کا ہے بس انتظار
ناز ہے اپنی وفا پر بن بلائے جائے کیوں
کیوں نہ ہو جلوہ نما جو دوستی جب عام ہے
پھر نگاہِ شوق کو وہ اس قدر ترسائے کیوں
بے ثباتی حسن کی ہو جب کسی کے سامنے
رنگ رنگیلی نئی نویلی چیز پر للچائے کیوں
اپنی مرضی سے پلک تک بھی نہ جھپکی عمر بھر
نامۂ اعمال پر مسرور پھر شرمائے کیوں
مسرور کاشمیری
No comments:
Post a Comment