Wednesday, 20 November 2024

کوئی تو بات کرے التجا قبول کرے

 کوئی تو بات کرے التجا قبول کرے

اسے کہو کہ مِرا فیصلہ قبول کرے

میں چاہتا ہوں مِرے عشق میں الگ ہو کچھ

میں بیوفائی کروں وہ وفا قبول کرے

دعائیں مانگتے رہئیے حریف لمحوں میں

نہ جانے کب وہ ہماری دعا قبول کرے

وبا سے جان اگر بچ گئی تو مل لیں گے

اسے کہو کے ابھی دیکھنا قبول کرے

تمہارے لمس کا عادی ہے ایک مدت سے

یہ درد کیسے کسی کی دوا قبول کرے

قریب رہ کے اتر جائے گا نگاہوں سے

تو لازمی ہے ذرا فاصلہ قبول کرے

ہزار کہیے ردیفیں نئی نئی لیکن

ردیف وہ ہے جسے قافیہ قبول کرے

خموش لہروں کے دامن میں تیز طوفاں ہیں

خدا کرے کے مِرا نا خدا قبول کرے

نیا سنانے کا تب ہی مزہ ہے اے واحد

کہ تیری بات نیا قافلہ قبول کرے


رمیز واحد میرٹھی

No comments:

Post a Comment