دیر مجھ سے کبھی ہو جائے تو دُکھ ہوتا ہے
منتظر ہار کے سو جائے تو دکھ ہوتا ہے
چور رہتا ہے تگ و تاز سے میرا بھی بدن
جب عیاں چہرے سے ہو جائے تو دکھ ہوتا ہے
جس کی دمسازی سے دم خم ہو لب و لہجے میں
خار لفظوں کے چبھو جائے تو دکھ ہوتا ہے
اپنی تہذیب و ثقافت کے بھی سرمائے کا
بوجھ لوگوں سے نہ ڈھو جائے تو دکھ ہوتا ہے
کون رکھے گا مِرے بعد محبت کا بھرم
قتل مجھ سا کوئی ہو جائے تو دکھ ہوتا ہے
آدمی اپنی فضیلت بھی نہ ملحوظ رکھے
ہاتھ غیرت سے بھی دھو جائے تو دکھ ہوتا ہے
فیس بک دوست بُرے وقت بھی کام آتے ہیں
اتفاقاً کوئی کھو جائے تو دکھ ہوتا ہے
سرفراز اب دل کمبخت کو اپنا بھی خیال
غم کے دریا میں ڈبو جائے تو دکھ ہوتا ہے
سرفراز اعظمی
No comments:
Post a Comment