Tuesday, 19 November 2024

ہم نے بہار نو کو عطا کی لہو کی آنچ

 ہم نے بہار نو کو عطا کی لہو کی آنچ

صحنِ چمن میں پھیل گئی رنگ و بو کی آنچ

ڈالے حنائی ہاتھ جو پانی میں شوخ نے

لہروں پہ رقص کرنے لگی آبِ جُو کی آنچ

یوں عکسِ ماہتاب لرزتا ہے جھیل پر

چلمن سے کھیلتی ہو کسی خوبرو کی آنچ

اس کی کرم نواز نگاہوں کے روبرو

کچھ اور بڑھ گئی مِرے حق میں عدو کی آنچ

اے سوئی پلکوں والے! زرا احتیاط سے

زخموں کو اور گہرا نہ کر دے رفو کی آنچ

کی اس نے لب کشائی تو عنوان بن گئے

اور لفظ لفظ پھیل گئی گفتگو کی آنچ

ہے ریگزار پر مِرے نقشِ قدم کی چھاپ

چھالوں کو راس آ گئی صحرائی لُو کی آنچ

اک رِندِ مے کدہ کو یہ کہتے ہوئے سُنا

زاہد وضو نہ توڑ دے جام و سبو کی آنچ

ہے حوصلہ بلند تو دشوار راہ میں

مدھم نہ ہونے پائے رضا جستجو کی آنچ


صفدر رضا کھنڈوی

No comments:

Post a Comment