ست گُرو لکھ یا رحیم و رام لِکھ
ایک ہے اس کے ہزاروں نام لکھ
آنسوؤں سے حسرتِ ناکام لکھ
کوئی خط ایسا بھی اس کے نام لکھ
پی گیا جو ظُلمتوں کو گھول کر
ایک دریا ہے اسے گُمنام لکھ
چیختے لمحے سُلگتے روز و شب
اس صدی کو فتنۂ کُہرام لکھ
جب نظر آئیں تجھے جنگل کٹے
ان کی بربادی کو قتلِ عام لکھ
اُٹھ شہیدانِ وطن کی خاک سے
اپنی پیشانی پہ ان کے نام لکھ
چھت اُڑا کر لے گئیں جو آندھیاں
مُفلسوں کی غمزدہ وہ شام لکھ
تُو دِیا ہے پِیر کی درگاہ کا
دے بشارت نُور کی الہام لکھ
آ چِلم بھر ہم فقیروں کی رضا
پھر فروغِ بُت کدہ اصنام لکھ
صفدر رضا کھنڈوی
No comments:
Post a Comment