فرقہ کشی کا کوئی بھی مطلب دکھائیے
غارت گروں کا ایک ہی مذہب دکھائیے
مِلّی حقیقتوں پہ ہے پردہ پڑا ہوا
فکر و نظر کا آپ ہی کوکب دکھائیے
قدریں خلوص کی ہیں پراگندہ کم ابھی
رُتبے میں دھونس دیجیے منصب دکھائیے
رہ جائیں دانت پیس کے پیر و جواں تمام
اتنا نہ خود کو غیر مہذب بنائیے
تجدید کیجے اہلِ تذبذب یقین کی
کہتا ہے وقت اب کوئی کرتب دکھائیے
ذہنی مرض پہ تلخ دوا کیوں حکیم جی
شیریں ہے کوئی نسخہ مجرّب دکھائیے
عاشق مزاج لوگوں میں کچھ من چلے بھی ہیں
آنکھیں دکھا کے سب کو نہ یوں لب دکھائیے
منہ پھیرتے ہیں دیکھ کے منہ سرفراز وہ
کس دل سے دل کی داغ انہیں اب دکھائیے
سرفراز اعظمی
No comments:
Post a Comment