گھر سے نکل کے آئے ہیں بازار کے لیے
یہ بھیڑ بھاڑ اچھی ہے بے کار کے لیے
ہم یار کے لیے ہیں نہ دیدار کے لیے
ٹیرس پہ آ کے بیٹھے ہیں اخبار کے لیے
دلجوئی کر رہا ہے بہت دیر سے طبیب
کیا آخری دوا ہے یہ بیمار کے لیے؟
میں نے تو اس دیار میں سب کچھ لُٹا دیا
دنیا سفر پہ جاتی ہے گھر بار کے لیے
میرے دل تباہ میں اتنی جگہ کہاں؟
اس نے جگہ نکالی ہے دیوار کے لیے
تم نے تو مانا جُرم کا اقرار کر لیا
لیکن مجھے سزا ملی انکار کے لیے
اے ماہرو! امید کی کوئی کرن تو ہو
ہم جیسے تیرگی کے گرفتار کے لیے
ایسا نہیں کہ شہر میں آسانیاں نہ ہوں
لیکن وہ سب ہیں لمحۂ دشوار کے لیے
رسول ساقی
No comments:
Post a Comment