پھینکے جو میں نے سکے تو رشتہ بدل گیا
سرکاری اسپتال میں بچہ بدل گیا
سوچا تھا آسمانوں کو چھو لیں گے ایک دن
آ کر تمہارے گاؤں میں حلیہ بدل گیا
پیسہ کمانے عورتیں گھر سے نکل پڑیں
اکیسویں صدی کا تقاضہ بدل گیا
زانی ملے کہیں پہ تو بہروپیے کہیں
زاہد! تِری گلی کا تماشہ بدل گیا
بے چینی اضطراب اور اندازِ گفتگو
محفل میں ان کے آنے سے کیا کیا بدل گیا
خوفِ خدا ہے کوئی نہ پُرکھوں کا احترام
اس دور کا بشر یہاں کتنا بدل گیا
امیدِ کامیابی کی ہر پل رہی، مگر
جیون کے امتحان کا پرچہ بدل گیا
مظلوم کی دُعاؤں نے زنجیر کھینچ دی
محلوں کے تخت و تاج کا نقشہ بدل گیا
آیا تمہارا صبر تمہارے ہی کام امین
اعمال جگمگا اٹھے، لکھا بدل گیا
عنایت امین
No comments:
Post a Comment