ایک مجبور تہہ دام بلا کیا کرتا
نہ تڑپتا تو تڑپنے کے سوا کیا کرتا
غیر پابندئ آئینِ وفا کیا کرتا
میری تقلید کوئی میرے سوا کیا کرتا
چارہ گر کو مِرے احباب نہ بدنام کریں
لا دوا درد کی بے چارہ دوا کیا کرتا
جس پہ قابو نہ ہو اس بات کا شکوہ بے سود
نالہ نالہ ہی تو تھا، حشر بپا کیا کرتا
مسکراتے ہوئے وہ جام بڑھانا اس کا
کوئی انکار کا پہلو ہی نہ تھا، کیا کرتا
موجِ گرداب سے کشتی کو بچا لے جانا
کارِ ممکن تھا مگر حکمِ خدا کیا کرتا
منتِ غیر نہ تھا شیوۂ ناطق، لیکن
ناموافق تھی زمانے کی ہوا کیا کرتا
ناطق مالوی
No comments:
Post a Comment