تاروں سے اور بات میں کمتر نہیں ہوں میں
جُگنو ہوں اس لیے کہ فلک پر نہیں ہوں میں
صدموں کی بارشیں مجھے کچھ تو گُھلائیں گی
پُتلا ہوں خاک کا، کوئی پتھر نہیں ہوں میں
دریائے غم میں برف کے تودے کی شکل میں
مُدت سے اپنے قد کے برابر نہیں ہوں میں
اس کا خیال، اس کی زباں، اس کے تذکرے
اس کے قفس سے آج بھی باہر نہیں ہوں میں
میں تشنگی کے شہر پہ ٹُکڑا ہوں ابر کا
کوئی گِلا نہیں کہ سمندر نہیں ہوں میں
کیوں زہر زندگی نے پلایا مجھے مینک
وہ بھی تو جانتی تھی کہ شنکر نہیں ہوں میں
مینک اوستھی
No comments:
Post a Comment