Saturday, 9 November 2024

ہر طرف ڈر ہی ڈر ہے خوف ہی خوف

 زلزال


ہر طرف ڈر ہی ڈر ہے خوف ہی خوف

زلزلوں کا ثمر ہے خوف ہی خوف

مستقل زلزلوں کی زد میں ہیں ہم

گھر ہے یا رہگزر ہے خوف ہی خوف

جانے کیا کھلبلی ہے زیرِ زمیں

اوپری سطح پر ہے خوف ہی خوف

گونج اٹھا شورِ صُورِ اسرافیل

گھن گرج، الحذر، ہے خوف ہی خوف

گَڑگڑاہٹ ہی گڑِگڑاہٹ ہے

باعثِ چشمِ تر ہے خوف ہی خوف

منزلیں مٹی کی بھنور میں گم

ڈوبتے بام پر ہے خوف ہی خوف

قتل گاہیں ہیں کنکریٹ چھتیں

جن کے زیر و زبر ہے خوف ہی خوف

کوہسار اعتماد سے محروم

ہر اکھڑتا شجر ہے خوف ہی خوف

بستیاں لے چلے پھسلتے پہاڑ

موت برحق مگر ہے خوف ہی خوف

مسجدیں گر پڑیں ہیں سجدوں میں

حکمِ ربِ بشر ہے خوف ہی خوف

مدرسے بچوں کے بنے مدفن

لوٹ کے آیا گھر ہے خوف ہی خوف

کانچ سے چہرے ٹوٹ پھوٹ گئے

نوکِ ہر سنگ پر ہے خوف ہی خوف

مل گئے بستے کھو گئے طلبہ

کھوج کا سب ہنر ہے خوف ہی خوف

جانور کھل سکے نہ کھونٹوں سے

خاک و خوں جسم و سر ہے خوف ہی خوف

اب پرندے بھی چہچہاتے نہیں

اب تہِ بال و پر ہے خوف ہی خوف

مرگِ دشمن پہ بھی نہیں کوئی خوش

فکر و احساس پر ہے خوف ہی خوف

ہوئے بے رنگ گل بدن باسی

اب یہاں تازہ تر ہے خوف ہی خوف

مانسہرہ، الائی اور بٹل

جا بجا سر بسر ہے خوف ہی خوف

راولاکوٹ،  باغ و بالاکوٹ

سوگ سے پیشتر ہے خوف ہی خوف

اب مظفرآباد قبرستان

حُسنِ کشمیر پر ہے خوف ہی خوف

جہلم و نیلم و کُنہار، سرّن

طاری ہر لہر پر ہے خوف ہی خوف

فردِ اموات ہے طویل ترین

سُرخئ مختصر ہے خوف ہی خوف

آٹھ کم نو اور آٹھ اکتوبر

اپنی معراج پر ہے خوف ہی خوف

عیسوی سن ہے دو ہزار اور پانچ

پاؤں سے تا بہ سر ہے خوف ہی خوف

ماہِ رمضاں کا عشرۂ اول

اب کے اترا مگر ہے خوف ہی خوف

شب کو اولے بھی زلزلے بھی شدید

برسا پھر ٹوٹ کر ہے خوف ہی خوف

سلسلے سب مواصلات کے ختم

نامہ بر کی خبر ہے خوف ہی خوف

کون ہے اب یہاں دلیر و نڈر

صرف سینہ سپر ہے خوف ہی خوف

زلزلے بس گئے رگ و پے میں

چھایا اعصاب پر ہے خوف ہی خوف

متقی کون، کون تر دامن

اس سے قطع نظر ہے خوف ہی خوف

چارہ گر کانپتا ہے بےچارہ

کیا کرے چارہ گر ہے خوف ہی خوف

مرگِ انبوہ جشن بھی نہ بنا

نقش ہر چہرے پر ہے خوف ہی خوف

درد اس حد پہ بھی دوا نہ ہوا

اب تو شام و سحر ہے خوف ہی خوف

’’نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‘‘

موت کا رات بھر ہے خوف ہی خوف

دے زباں کیسے واقعات کا ساتھ

حرفِ ہر دیدہ ور ہے خوف ہی خوف

یہ قیامت گُزر ہی جائے گی

چار سُو اب مگر ہے خوف ہی خوف

دوست میری خبر کو مت آنا

اب ادھر کا سفر ہے خوف ہی خوف

کیا دکھائے کوئی قلم کا کمال

حدِ فکر و نظر ہے خوف ہی خوف


فضل اکبر کمال

No comments:

Post a Comment