Saturday, 9 November 2024

جدا انسان کو انسان سے کرتے چلے آئے

 تقسیم


جدا انسان کو انسان سے کرتے چلے آئے

کبھی مندر، کبھی گرجا، کبھی سورج کی پوجا سے

لگا کر ہر جگہ بازار اسلحے کا

بچے، پھول، شبنم اور پھر سبزہ زمین کا

سب جلا ڈالا

عجب منڈی لگی ہے

ہر جگہ ہر شہر کونے میں

خریدے جا رہے ہیں

خواب، جگنو، تتلیاں اور پھول

بیچی جا رہی ہیں

ارمانوں کی سب شکلیں

لگی ہے آگ ہر سو آرزوؤں کی دنیا میں

پانی کون ڈالے؟

عجب رنگ میں کیا تقسیم دھرتی کے ہر ایک ذرے کو

عدل کے نام پر عجب انصاف کر ڈالا

ہاتھوں کی لکیروں سے مقدر کی گواہی پر

غریبی کے لکھے جاتے ہیں فیصلے سارے

جدا انسان کو انسان سے کرتے چلے آئے


منور بلوچ

No comments:

Post a Comment