تقسیم
جدا انسان کو انسان سے کرتے چلے آئے
کبھی مندر، کبھی گرجا، کبھی سورج کی پوجا سے
لگا کر ہر جگہ بازار اسلحے کا
بچے، پھول، شبنم اور پھر سبزہ زمین کا
سب جلا ڈالا
عجب منڈی لگی ہے
ہر جگہ ہر شہر کونے میں
خریدے جا رہے ہیں
خواب، جگنو، تتلیاں اور پھول
بیچی جا رہی ہیں
ارمانوں کی سب شکلیں
لگی ہے آگ ہر سو آرزوؤں کی دنیا میں
پانی کون ڈالے؟
عجب رنگ میں کیا تقسیم دھرتی کے ہر ایک ذرے کو
عدل کے نام پر عجب انصاف کر ڈالا
ہاتھوں کی لکیروں سے مقدر کی گواہی پر
غریبی کے لکھے جاتے ہیں فیصلے سارے
جدا انسان کو انسان سے کرتے چلے آئے
منور بلوچ
No comments:
Post a Comment