بندگی اور سرکشی کی حد میں ہے
اس قدر دل آگہی کی حد میں ہے
اس کہانی میں انا ہے میرے دوست
یہ کہانی دل لگی کی حد میں ہے
اچھا ہوتا دوست ہی رہتا، مگر
شکر ہے وہ دشمنی کی حد میں ہے
ہنستے ہنستے اکثر اب رو پڑتے ہیں
اس قدر غم اب خوشی کی حد میں ہے
دل سمجھتا ہے وہ اب بھی پاس ہے
ناداں ہے دیوانگی کی حد میں ہے
روح اکثر لوگوں کی زندہ نہیں
جان لیکن زندگی کی حد میں ہے
نوشین راؤ
No comments:
Post a Comment