وہ یاد آئے مگر اس قدر نہ آیا کرے
کہ میری جان لبوں تک نہ کھینچ لایا کرے
نہ دے ثبوت نہ دعویٰ کرے، مگر مجھ کو
سزا سے پہلے وہ الزام تو بتایا کرے
نہیں ہے دوست کے کپڑوں میں وہ اگر دشمن
مِرا مذاق مِرے سامنے اڑایا کرے
اگر وہ دوست ہے میرا تو ٹوٹ جائے جہاں
وہاں سے وہ مِری آواز پھر اٹھایا کرے
مِری وفائیں وہ جیسے نہ یاد رکھ پایا
مِری جفا بھی وہ ویسے ہی بھول جایا کرے
کبھی خیال کو لگنے تو اپنے تازہ ہوا
کہو کہ ذہن سے باہر بھی گھوم آیا کرے
پریہ درشی خیال
No comments:
Post a Comment