Monday 4 November 2024

غم حیات سے کس کو نجات ملتی ہے

 غمِ حیات سے کس کو نجات ملتی ہے

سنا ہے مر کے بھی تازہ حیات ملتی ہے

عجیب رنگ دکھائے ہیں تُو نے حُسنِ ازل

کہ ہر زباں پہ رواں تیری بات ملتی ہے

سیاہ دونوں ہیں دونوں کے ایک سے ہیں مزاج

تمہاری زُلف سے فُرقت کی رات ملتی ہے

قدم قدم پہ زمانے میں ہیں نئے فتنے

قدم قدم پہ نئی واردات ملتی ہے

کسی سے دل بھی لگائیں تو کیا لگائیں یہاں

جو شے بھی ملتی ہے وہ بے ثبات ملتی ہے

انہیں کے حصے میں آتی ہے بندگی عابد

دلوں میں جن کے تجلئ ذات ملتی ہے


عابد پیشاوری

شام لال کالرا

No comments:

Post a Comment