خلوصِ مدح و جلال و جمال سے بھی گئے
فقیہِ عصر تو کشف و کمال سے بھی گئے
حضورِ دل بڑے دعوے تھے لنترانی کے
جواب بن نہ پڑا اور سوال سے بھی گئے
تِرے خیال کا موسم، تِرے خیال کے دن
مگر گمان کہ تیرے خیال سے بھی گئے
ملال یہ ہے کہ اس سرکوشی کے عالم میں
بفیضِ قُرب نشاطِ وصال سے بھی گئے
وہ ذی شرف، وہ ہوس کارِ خسروانِ جہاں
جو دن پھرے ہیں تو جاہ و جلال سے بھی گئے
جنم جنم سے اجالوں کی آرزو میں وقار
فریبِ سلسلۂ ماہ و سال سے بھی گئے
وقار خلیل
No comments:
Post a Comment