Saturday, 9 November 2024

یار اٹھ گئے دنیا سے اغیار کی باری ہے

 یار اٹھ گئے دنیا سے اغیار کی باری ہے

گل سیر چمن کر گئے اب خار کی باری ہے

زاہد نے عبادت چھوڑ اس زلف سے الجھا ہے

تسبیح کی شیخی گئی، زنار کی باری ہے

اس کاکل مشکیں کی بو ہوئی ہے پریشاں آ

سب شہر ختن لٹ گئے تاتار کی باری ہے

گلشن میں خراماں ہو اب برقعہ اٹھایا ہے

سب گر گیا سروستاں گلزار کی باری ہے

کر زخمی نگاہوں سے اب دل پہ اٹھایا ہاتھ

نیزوں کی گئی نوبت تروار کی باری ہے

دل پر ہیں جہاں کے سب باہم کی کدورت سے

آئینوں کی صافی گئی زنگار کی باری ہے

جھڑ گئے وہ تبسم سے گل غنچے کھڑے ہیں سرو

تمکیں نے چمن لوٹا رفتار کی باری ہے

ان زلفوں کے عقرب نے دل میرا ڈسا عزلت

پیچھے پڑی ہے چوٹی اب مار کی باری ہے


ولی عزلت

No comments:

Post a Comment