بھوک
ایک گالی جو کیچڑ کے مانند چسپاں ہوئی
ہونٹ جو کاسۂ مفلسی بن گئے
ہاتھ جو گردنوں پر جھپٹنے لگے
اور چاول کے جب چند دانے ملے
انتڑیوں کا یہ آتش فشاں بجھ گیا
پیٹ کی بھوک سچ مچ جہنم کا تنور ہے
لیکن اس بھوک کا کیا مداوا کریں
جو اصولوں کے اس قحط میں
اپنے زخموں پہ خاموش ہے
شارع عام پر چاٹتی ہے انہیں
اور اس بھیڑ میں
کون ہے جو اسے بھیک دے
سب بھکاری ہیں، کوئی دیالو نہیں
منیب الرحمٰن
No comments:
Post a Comment