Saturday, 16 November 2024

جس طرح بدلا ہوں میں بدلے گی کیا

 جس طرح بدلا ہوں میں بدلے گی کیا

میری بستی مجھ کو پہچانے گی کیا

زخم سر ہے آپ اپنی داستان

پتھروں سے زندگی پوچھے گی کیا

تیرگی نے مسخ کر دیں صورتیں

آنے والی روشنی دیکھے گی کیا

ذہن میں رکنے نہیں پاتے خیال

جسم کے اوپر قبا ٹھہرے گی کیا

میں تو جاں دیتے ہوئے بھی ہنس پڑوں

تلخئ زہراب غم سوچے گی کیا

دھوپ ایسی ہے کہ دریا سوکھ جائیں

خون کے چھینٹوں سے رُت بدلے گی کیا


منظر سلیم

No comments:

Post a Comment