باہر کتنی سرد ہوا ہے، کھڑکی کھول کے دیکھ
آوازوں پر برف جمی ہے، بے شک بول کے دیکھ
جیون کے برتن میں کم ہو سکتی ہے کڑواہٹ
اس میں اپنے لہجے کی شیرینی گھول کے دیکھ
اندھی دنیا کے کہنے پر یوں بے وزن نہ ہو
اپنی نظروں میں بھی خود کو پورا تول کے دیکھ
گہری فکر میں ڈوبی ہوئیں بوڑھی آنکھوں کو پڑھ
پھیلے ہوئے ہاتھوں کو تھام، آنسو کشکول کے دیکھ
پتھر کے بھی سینے بھی دل ہوتا ہے، اچھے دوست
میرا حال بھی پوچھ مِرے بھی درد پھرول کے دیکھ
ہاتھ میں ہے محبوب کا ہاتھ تو کیا گرنے کا خوف
تھوڑی دور تو چل، دو چار قدم تو ڈول کے دیکھ
محبوب کاشمیری
No comments:
Post a Comment