یارکی یاری کے غم سہنے کی عادت ہو گئی
تو سبھی لوگوں کو ہم سے ہی شکایت ہو گئی
جب ہوئی تحقیق تو آثار سارے مل گئے
چھوڑ کر مجھ کو کیوں اس سے حماقت ہو گئی
جو جھگڑتا تھا محبت کو نبھانے کے لیے
پھر اسے کیسے کسی سے یوں رفاقت ہو گئی
تھا بہت اچھا؛ مگر اس سے محبت چھوڑ کر
بے وفاؤں کی محافل کی صدارت ہو گئی
یار نے میرے کبھی جھوٹی تسلی تک نہ دی
کیا محبت ہو گئی، ہم سے ندامت ہو گئی؟
عشق سے توبہ، محبت سے معافی مانگ لی
ہاں یونہی بے وجہ ثانی سے شرارت ہو گئی
جون ثانی
No comments:
Post a Comment