زندگی زہر کا اک جام ہوئی جاتی ہے
کیا سے کیا یہ مے گلفام ہوئی جاتی ہے
کچھ گزاری ہے غم عشق و محبت میں
حیات کچھ سپرد غم ایام ہوئی جاتی ہے
پھر کسی مرد براہیم کا محتاج ہے دہر
پھر وہی کثرت اصنام ہوئی جاتی ہے
ہوس سیر تماشا ہے کہ ہوتی نہیں ختم
زندگی ہے کہ سبک گام ہوئی جاتی ہے
صحبت پیر مغاں میں یہ کھُلی عظمتِ عشق
عقل بھی درد تہِ جام ہوئی جاتی ہے
تم جو آئے ہو تو شکل در و دیوار ہے اور
کتنی رنگین مِری شام ہوئی جاتی ہے
نہال سیوہاروی
No comments:
Post a Comment