Sunday, 10 November 2024

نہ کوئی تیر نہ کوئی کمان باقی ہے

 نہ کوئی تیر نہ کوئی کمان باقی ہے

مگر وہ اک نگہ مہربان باقی ہے

اڑا کے لے گئیں ہجرت کی آندھیاں سب کچھ

بس اپنے سر پہ کھلا آسمان باقی ہے

اک اور تیر چلا اپنا عہد پورا کر

ابھی پرندے میں تھوڑی سی جان باقی ہے

فضا میں گونج رہی ہے صدائے مظلوماں

زباں خموش ہے لیکن بیان باقی ہے

مٹا سکا نہ کبھی وقت کا غبار اسے

فصیل شب پہ لہو کا نشان باقی ہے

ہمارے شہر پہ ویرانیاں مسلط ہیں

مکیں تو کوئی نہیں ہے مکان باقی ہے

نفس نفس ہے وہی آزمائشوں کا سفر

قدم قدم پہ وہی امتحان باقی ہے

مثل یہ سچ ہے کہ رسی کے بل نہیں جاتے

اکھڑ چکی ہے ہوا آن بان باقی ہے

عطا ہوئی ہے ہمیں ایسی جرأت پرواز

کہ پر شکستہ ہیں لیکن اڑان باقی ہے

کسی کنارے لگا دے گی مہربان ہوا

شکستہ ناؤ سہی بادبان باقی ہے

دعا کے ہاتھ بھی شل ہو گئے مگر اے ناز

وہی زمین وہی آسمان باقی ہے


ناز قادری

No comments:

Post a Comment