نہ کوئی تیر نہ کوئی کمان باقی ہے
مگر وہ اک نگہ مہربان باقی ہے
اڑا کے لے گئیں ہجرت کی آندھیاں سب کچھ
بس اپنے سر پہ کھلا آسمان باقی ہے
اک اور تیر چلا اپنا عہد پورا کر
ابھی پرندے میں تھوڑی سی جان باقی ہے
فضا میں گونج رہی ہے صدائے مظلوماں
زباں خموش ہے لیکن بیان باقی ہے
مٹا سکا نہ کبھی وقت کا غبار اسے
فصیل شب پہ لہو کا نشان باقی ہے
ہمارے شہر پہ ویرانیاں مسلط ہیں
مکیں تو کوئی نہیں ہے مکان باقی ہے
نفس نفس ہے وہی آزمائشوں کا سفر
قدم قدم پہ وہی امتحان باقی ہے
مثل یہ سچ ہے کہ رسی کے بل نہیں جاتے
اکھڑ چکی ہے ہوا آن بان باقی ہے
عطا ہوئی ہے ہمیں ایسی جرأت پرواز
کہ پر شکستہ ہیں لیکن اڑان باقی ہے
کسی کنارے لگا دے گی مہربان ہوا
شکستہ ناؤ سہی بادبان باقی ہے
دعا کے ہاتھ بھی شل ہو گئے مگر اے ناز
وہی زمین وہی آسمان باقی ہے
ناز قادری
No comments:
Post a Comment