Wednesday, 13 November 2024

دل درد سے بہلا ہے تو غم خوار کھلے ہیں

 دل درد سے بہلا ہے تو غمخوار کھلے ہیں

کیا کیا نہ تیری چاہ کے اسرار کھلے ہیں

یوں بیٹھ رہو گے تو وہی شہر غم دل

اٹھو تو کئی رنگ کے بازار کھلے ہیں

ہر کوئے تمنا میں چراغاں کا سماں ہے

ہر گوشۂ پہلو میں طرب زار کھلے ہیں

لٹتی ہے شب و روز یہاں درد کی دولت

سینے میں مرے گنج گراں بار کھلے ہیں

محفل میں کبھی ذکر روا بھی نہ تھا جن کا

ناجی وہ صحیفے پس دیوار کھلے ہیں


نذیر ناجی

No comments:

Post a Comment