دل درد سے بہلا ہے تو غمخوار کھلے ہیں
کیا کیا نہ تیری چاہ کے اسرار کھلے ہیں
یوں بیٹھ رہو گے تو وہی شہر غم دل
اٹھو تو کئی رنگ کے بازار کھلے ہیں
ہر کوئے تمنا میں چراغاں کا سماں ہے
ہر گوشۂ پہلو میں طرب زار کھلے ہیں
لٹتی ہے شب و روز یہاں درد کی دولت
سینے میں مرے گنج گراں بار کھلے ہیں
محفل میں کبھی ذکر روا بھی نہ تھا جن کا
ناجی وہ صحیفے پس دیوار کھلے ہیں
نذیر ناجی
No comments:
Post a Comment