عشق ناکام تو نہیں ہو گا
مجھ پہ الزام تو نہیں ہو گا
جس کی خاطر بھلا دیا سب کچھ
شخص وہ عام تو نہیں ہو گا
تیرے ہاتھوں میں دیکھیے اک دن
زہر کا جام تو نہیں ہو گا
نامہ بر کی خوشی بتاتی ہے
کوئی پیغام تو نہیں ہو گا
ہم اگر غم میں مر گئے تیرے
موت کا نام تو نہیں ہو گا
پھر تری دید کے بنا لوٹوں
پھر تجھے کام تو نہیں ہو گا
چلتے چلتے جو چاند ٹھہرا ہے
وہ لبِ بام تو نہیں ہو گا
ہم اگر بے قرار ہیں باطن
اُسے آرام تو نہیں ہو گا
باطن رجانوی
No comments:
Post a Comment