Wednesday, 13 November 2024

عشق ناکام تو نہیں ہو گا

 عشق ناکام تو نہیں ہو گا

مجھ پہ الزام تو نہیں ہو گا

جس کی خاطر بھلا دیا سب کچھ

شخص وہ عام تو نہیں ہو گا

تیرے ہاتھوں میں دیکھیے اک دن

زہر کا جام تو نہیں ہو گا

نامہ بر کی خوشی بتاتی ہے

کوئی پیغام تو نہیں ہو گا

ہم اگر غم میں مر گئے تیرے

موت کا نام تو نہیں ہو گا

پھر تری دید کے بنا لوٹوں

پھر تجھے کام تو نہیں ہو گا

چلتے چلتے جو چاند ٹھہرا ہے

وہ لبِ بام تو نہیں ہو گا

ہم اگر بے قرار ہیں باطن

اُسے آرام تو نہیں ہو گا


باطن رجانوی

No comments:

Post a Comment