Monday, 11 November 2024

کس تیقن تلک گئے ہم لوگ

 کس تیقن تلک گئے ہم لوگ

پھر بھی اے دل بھٹک گئے ہم لوگ

مثل دریا ملی تھی سیرابی

مثل ساحل بلک گئے ہم لوگ

یوں ہی اک دن سفر کیا آغاز

یوں ہی اک روز تھک گئے ہم لوگ

اہتماماً ہوئے تھے ہم آغوش

احتیاطاً بہک گئے ہم لوگ

ایک خوشبو چمن میں لائی تھی

اور صحرا تلک گئے ہم لوگ

نور تھا یا وہ اک بدن تھا سمیر

اس کو چھو کر چمک گئے ہم لوگ


نعیم سمیر

No comments:

Post a Comment