جب سے مِری جاناں نے پھیری ہے نظر اپنی
بے کیف ہے حد درجہ یہ شام و سحر اپنی
پُر شور ہواؤں نے کیا حال کیا سب کا
اب خیر مناتی ہے ہر شاخِ شجر اپنی
جس روز سے گزرا ہے لشکر کسی ظالم کا
اس دن سے لرزتی ہے یہ راہگزر اپنی
کل جس نے اجاڑی تھی دنیا مِرے ارماں کی
کیوں اس کے دریچے پر رہتی ہے نظر اپنی
ہر ہاتھ میں پتھر ہے ، ہر راہ میں کانٹے ہیں
ہو زیست بھلا کیسے پھولوں کی بسر اپنی
پُرکھوں کی وراثت کے ہم لوگ امیں ٹھہرے
دنیا میں جدا سب سے ہے یار ڈگر اپنی
تنہائی کے عالم میں یہ سوچتا رہتا ہوں
اس شوخ کی باتوں سے کیوں چشم ہے تر اپنی
ہر سمت سے راہوں میں خنجر ہی چلے ہم پر
”اب اور سنائیں کیا رودادِ سفر اپنی“
جب توڑ لیا تم نے ہر رشتۂ دل ہم سے
کیوں ڈھونڈتی رہتی ہے پھر تم کو نظر اپنی
یہ کیسے جزیرے میں پہنچے ہیں قدم اپنے
جس جا نہیں ملتی ہے جاوید خبر اپنی
مشتاق جاوید
No comments:
Post a Comment