Sunday, 17 November 2024

خفا ہم سے وہ بے سبب ہو گیا

 خفا ہم سے وہ بے سبب ہو گیا

غضب ہو گیا ہے غضب ہو گیا

تصور میں زلف و رخ یار کے

مِرا روز مانند شب ہو گیا

میں آگے تو دیوانہ اتنا نہ تھا

خدا جانے کیا مجھ کو اب ہو گیا

لب نازک اس کے جو یاد آ گئے

کئی بار میں جاں بہ لب ہو گیا

تِرے غم میں سودا و خبط و جنوں

جو تھا مجھ کو منظور سب ہو گیا

یہ آئینہ رو دیکھے یاں منتظر

کہ دل اپنا رشکِ حلب ہو گیا


منتظر لکھنوی

No comments:

Post a Comment