خفا ہم سے وہ بے سبب ہو گیا
غضب ہو گیا ہے غضب ہو گیا
تصور میں زلف و رخ یار کے
مِرا روز مانند شب ہو گیا
میں آگے تو دیوانہ اتنا نہ تھا
خدا جانے کیا مجھ کو اب ہو گیا
لب نازک اس کے جو یاد آ گئے
کئی بار میں جاں بہ لب ہو گیا
تِرے غم میں سودا و خبط و جنوں
جو تھا مجھ کو منظور سب ہو گیا
یہ آئینہ رو دیکھے یاں منتظر
کہ دل اپنا رشکِ حلب ہو گیا
منتظر لکھنوی
No comments:
Post a Comment