Sunday, 17 November 2024

کل رات کو گر کے ہاتھوں سے

 کل رات کو گر کے ہاتھوں سے

وہ وقت کا ساغر ٹوٹ گیا

پھر ٹوٹے ہوئے اس ساغر نے

یادوں کے دریچے کھول دئیے

یادیں جو میرا سرمایہ ہیں

یادیں جو ابھی تک زندہ ہیں

پھر یادوں کی بوچھاروں سے

سب میرا نشیمن بھیگ گیا

اس زیست کا گلشن بھیگ گیا

امید کا درپن بھیگ گیا

چہرہ جب دیکھا درپن میں

پہچان نہ پایا میں خود کو

گرداب میں یادوں کے پھنس کر

دھندلا سے گئے تھے سب منظر

چہرہ یہ میرا چہرہ تو نہ تھا

میں بھول گیا خود کا چہرہ

اور پھر سب یادیں بکھر گئیں

جب آنکھ کھلی معلوم ہوا

اک خواب سحر تھا ٹوٹ گیا


مسعود ظہیر نقوی

No comments:

Post a Comment