کل رات کو گر کے ہاتھوں سے
وہ وقت کا ساغر ٹوٹ گیا
پھر ٹوٹے ہوئے اس ساغر نے
یادوں کے دریچے کھول دئیے
یادیں جو میرا سرمایہ ہیں
یادیں جو ابھی تک زندہ ہیں
پھر یادوں کی بوچھاروں سے
سب میرا نشیمن بھیگ گیا
اس زیست کا گلشن بھیگ گیا
امید کا درپن بھیگ گیا
چہرہ جب دیکھا درپن میں
پہچان نہ پایا میں خود کو
گرداب میں یادوں کے پھنس کر
دھندلا سے گئے تھے سب منظر
چہرہ یہ میرا چہرہ تو نہ تھا
میں بھول گیا خود کا چہرہ
اور پھر سب یادیں بکھر گئیں
جب آنکھ کھلی معلوم ہوا
اک خواب سحر تھا ٹوٹ گیا
مسعود ظہیر نقوی
No comments:
Post a Comment