اسیری بے مزہ لگتی ہے بِن صیاد کیا کیجے
قفس کے کُنج میں تنہا عبث فریاد کیا کیجے
مِری تمکیں گئی مثلِ جرس برباد کیا کیجے
کہ میں تو چُپ ہوں پر کرتا ہے دل فریاد کیا کیجے
اثر کرتا نہیں بِن سجدۂ تسلیم کے نالہ
ہم اس مصرع پہ غیر از حلقۂ قد صاد کیا کیجے
کنارِ بے ستوں میں کیوں دیا نقش اپنے دلبر کا
تبھی فرہاد دنیا سے گیا ناشاد کیا کیجے
پٹکتا سر جو سنگ صورت شیریں سے بہتر تھا
عبث تیشے کے سر خوں دے گیا فرہاد کیا کیجے
ولی عزلت
No comments:
Post a Comment